Gard-e-Rah
Publisher: Maktaba-e-Danyal
360 .00 RS
Akhtar Hussain Raipuri
About Book
گردِ راہ کی خوبی یہ ہے کہ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے اپنے زندگی کے حالات اپنے تجربات و مشاہدات کو انتہائی دھیمے انداز میں انکسار و معروضیت کے ساتھ اپنا پرستی اور خود پروری سے بچ کر سادگی سے بیان کیا ہے کہ یہ خودنوشت ناول سے زیادہ دلچسپ اور زندگی سے زیادہ حقیقی بن گئی ہے۔ گردِ راہ کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ پوری کتاب میں ایک جہت، ایک زاویے کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں زندگی اپنے زمانے کی روح سے پیوست ہے اور زمانہ حالات سے مربوط ہے۔ ساتھ ساتھ واقعات، حالات، تجربات و مشاہدات کے مربوط بیان سے اس دور کی زندگی کے خدوخال اس طور پر ابھرے ہیں کہ زندگی اور زمانے کے رنگ نکھر کر اس تصویر کو خوبصورت بنا دیتے ہیں۔ یہ کتاب بظاہر ابواب میں تقسیم کی گئی ہے لیکن زوایہ نظر اور جہت کے سرے اس میں ایسا ربط اور ایسی ترتیب پیدا کر دیتے ہیںکہ شروع سے آخر تک یہ ایک دل کش اور جاذب نظر تحریر بن جاتی ہے۔ گردِ راہ میں ایک چیز جو دل کو موہتی اور پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لیتی ہے، وہ سچائی کا جرأت کے ساتھ واقعاتی اظہار ہے جسے اتنی سادگی اور خلوص کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ سچائی کا اظہار قاری کو اپنے اثر کے سیلاب میں بہا لے جاتی ہے۔ (ڈاکٹر جمیل جالبی)
About Author
اختر حسین رائے پوری 12جون 1912ء کو رائے پور، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔اے اور بنارس یونیورسٹی سے ایم۔ اے کی سطح کا ایک ساہتیہ النکار کا امتحان پاس کیا۔ پیرس سے ہند کی سماجی تاریخ پر ڈاکٹریٹ کیا۔ وطن واپس آنے کے بعد کئی جگہ نوکری کی۔ ہندوستانی سیاست دان راج گوپال اچاریہ کے پرائیویٹ سیکرٹری بنے تو کئی بڑے سیاست دانوں کے قریب آ گئے۔ تقسیم ہندوستان کے بعد پاکستان آ گئے۔ ان کا شمار انجمن ترقی پسند مصنفین کے معماروں میں ہوتا ہے۔ اردو میں اشتراکی تنقید کا آغاز ان ہی کے ذریعے ہوا۔ وہ ایک افسانہ نگار، تنقید نگار، مبصر، لغت نویس اور مترجم تھے۔ ان کی اردو تخلیقات میں افسانہ نگاری کو اولیت حاصل ہے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ’محبت اور نفرت‘ اور ’زندگی کا میلہ‘ منظر عام پر آئے۔ تنقید میں ’ادب اور انقلاب‘، ’سنگ میل‘، ’روشن مینار‘، اور خودنوشت ’گردِ راہ‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اختر حسین رائے پوری کو اردو، ہندی، فارسی، بنگالی، گجراتی اور سنسکرت کے علاوہ انگریزی اور فرانسیسی پر بھی عبور حاصل تھا۔ انھوں نے کالی داس کی ’شکنتلا‘ کا ترجمہ سنسکرت اور قاضی نذر اسلام کی نظموں کا ترجمہ بنگلہ سے ’پیام شباب‘ کے نام سے کیا۔ عزیز احمد کے تعاون سے فرانس کے مستشرق گارساں دتاسی کے سالانہ جائزوں کا ترجمہ بھی کیا۔ پرل ایس بک کے ناول ’گڈارتھ‘ کا ترجمہ ’پیاری زمین‘ کے نام سے کیا۔ روسی مصنف میکسم گورکی کی آپ بیتی کا ترجمہ ’میرا بچپن‘، ’روٹی کی تلاش‘، ’جوانی کے دن‘ ان کے اہم تراجم ہیں۔ اختر حسین رائے پوری 6جون 1992ء کو کراچی میں وفات پا گئے۔