Ye Na Tamam Se Aik ZIndagi Jo Guzri Hai
Publisher: Maktaba-e-Danyal
360 .00 RS
Musadiq Sanwal
About Book
شاعری__ مصدق کا پہلا اور پوشیدہ ذریعہ اظہار: فن کے میدان میں شاعری مصدق کا اولین ذریعہ اظہار تھی اور اسی کی خاطر انھوں نے سانول کا نام اختیار کیا۔ پھر اپنے جاننے والوں کے حلقے میں اسی نام سے جانے گئے۔ نوعمری کے دوران میں ہی مصدق نے ملتان میں مشاعرے پڑھنے شروع کر دیے وہ ادبی رسالوں میں شائع ہونے لگے اور ریڈیو پاکستان کے پروگراموں میں بھی شریک ہونے لگے اور یوں اُن کے بعض عمر رسیدہ معاصر شاعر حیران رہ گئے۔ سانول کا تعزیت نامہ جو ڈان میں جنوری ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا سے اقتباث۔ 2013ء میں مصدق کو پھیپھڑوں کا سرطان تشخیص کیا گیا تو شاید وہ موت کی ناگزیر حقیقت کا ادراک کرنے کی وجہ سے شاعری سے گہرے المناک احساس کے ساتھ وابستہ ہو گئے، مگر وہ دوستوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ یوں زندگی بسر کر رہے تھے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ انہیں اپنے اندر کسی المناک صورت حال کا سامنا ہی نہ ہو۔ اس مجموعے میں وہ شاعری شامل ہے جو مصدق نے اپنی زندگی کے اُس آخری برس میں لکھی اور جس کو ترتیب دینے کی پہلی اور آخری کوشش وہ کرتے رہے۔ اس میں آخری اضافے اس آپریشن سے پہلے کیے گئے جو جان لیوا ثابت ہوا۔ مصدق کے ترتیب دیے ہوئے مسودے کے علاوہ 2009ء سے لے کر 2013ء تک کے برسوں میں لکھی جانے والی بعض نظمیں بھی شامل ہیں۔
About Author
مصدق سانول 1963ء میں شہر اولیاء کے نام سے جانے والے ملتان میں پیدا ہوا۔ انہوں نے لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی۔ جنرل ضیاء کے آمرانہ دور میں این سی اے میں فن کے لیے مزاحمت کرنے پاداش میں مصدق کو تشدد سہنا پرا اور اُن کی ایک آنکھ ضائع ہو ئی۔ 1980ء کے عشرے میں اور کالج کی تعلیم کے فوراً بعد مصدق اُن ترقی پسند تحریکوں کے ہر اول دستے میں شامل رہے جو پنجابی اور سرائیکی فنون کے احیا کے لیے کوشاں تھیں۔1988ء میں مصدق کراچی آ گئے اور یہاں فن و دانشوری کی فعال و سرگرم شخصیات میں سے ایک بن گئے۔ 1990ء میں انہوں نے اپنے آپ کو پوری طرح سے تھیٹر کے لیے وقف کر دیا اور ’بانگ‘ تھیٹر گروپ کی بنیاد رکھتے ہوئے شہر کے تشدد زدہ علاقوں کے نوجوانوں کو اس گروپ کی طرف مائل کیا۔ مصدق سانول نے بہت سے اداروں کے ساتھ کام کیا جن میں ایکشن ایڈز، IUCN، WWF، PILER، انٹر ایکٹو ریسورس سینٹر اور کارا فلم فیسٹول گروپ شامل ہیں۔ انہوں نے نجی اشتہاری صنعت اور ٹیلی پروڈکٹشنز میں کافی کام کیا ۔ وہ طویل عرصہ بی بی سی اردو کے لیے پروڈیوسر کی حیثیت سے کام کرتے رہے، ڈان اور نیوز لائن میں کالم بھی لکھتے رہے۔ ویب جنرلزم کی طرف اُن کی پیش قدمی 2003ء میں ہوئی اور 2014ء میں انتقال کے وقت تک ان کا بنیادی پیشہ رہی۔ان کا شمار پاکستان میں آن لائن اردو صحافت کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ 2013میں انہیں سرطان کی تشخیص ہوئی اور 15جنوری 2014ء کو ان کا انتقال ہوا۔