Salebain Meray Darechay Mein
Publisher: Maktaba-e-Danyal
360 .00 RS
Faiz Ahmad Faiz
About Book
’صلیبیں میرے دریچے میں ‘135 خطوط پر مشتمل یہ مجموعہ فیض احمد فیض کے جیل میں گزارے ہوئے مشکل ترین ایام کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں۔ راولپنڈی سازش کیس کے سلسلے میں قید و بند کی کٹھن گھڑیاں فیض صاحب نے تخلیقی مصروفیات میں گزاریں۔ جیل میں پھول و پودے اگائے، چوزے و بلیاں پالیں، مشاعرے و فکرانگیز محفلیں منعقد کروائیں اور اپنے خاندان کی معاشی کفالت بھی کرتے رہے۔ ان تخلیقی خطوط میں احساس کی وسیع دنیا آباد ہے۔ ایک ترقی پسند شاعر، دانشور، مزدور طبقوں کے رہنما، انسانیت سے محبت کے گیت تخلیق کرنے والا تخلیق کار، کس طرح منتشر احساس کو لمحہ لمحہ جوڑتا ہے۔ زخموں کی یہ رفوگری کمال کی ہے۔ حسن، محبت، پیار، زندگی، حکایات، ادبی تبصرے، کہیں نٹشے اور آسکر وائلڈ کا ذکر تو کہیں غالب و شیکسپیئر کا تذکرہ۔ بدلتے موسموں کا ذکر اور ان موسموں کے سائے تلے احساس کا بکھرنا اور سمٹنا۔ بھنگ کے تیز و تیکھے پیالے جیسی گرمی اور احساس کی ان گنت چٹکیاں ان خطوط کا حصہ ہیں۔فیض احمد فیض کے خطوط پر مشتمل یہ تمثیل، فکرانگیز اور نئی نسل کی ذہنی و فکری افزائش کا ایک مضبوط حوالہ ہے۔ (شبنم گل)
About Author
فیض احمد فیض 13فروری 1912ء کو پنجاب کے ضلع نارووال میں پیدا ہوئے۔ فیض کی ابتدائی تعلیم مشرقی انداز میں شروع ہوئی اور انھوں نے قرآن کے دو پارے بھی حفظ کیے پھر عربی ، فاری کے ساتھ انگریزی تعلیم پر بھی توجہ دی گئی۔ فیض نے عربی اور انگریزی میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تعلیم سے فارغ ہو کر 1935ء میں فیض نے امرتسر کے محمڈن اورینٹل کالج میں بطور لیکچرر ملازمت اختیار کر لی۔ 1947ء میں فیض نے ’پاکستان ٹائمز‘ میں مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ سال 1951فیض کی زندگی میں صعوبتوں اور شاعری میں نکھار کا پیغام لے کر آیا۔ ان کو حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں گرفتار کر لیا گیا۔ 1955ء میں رہائی کے بعد وہ لندن چلے گئے۔ 1958ء میں فیض پاکستان واپس آئے لیکن جئل خانہ ایک بار پھر ان کا متنظر تھا۔ اسکندر مرزا کی حکومت نے کمیونسٹ مواد شائع اور تقسیم کرنے کے الزام میں ان کو پھر گرفتار کر لیا۔ اس بار ذوالفقار علی بھٹو کی کوششوں کے نتیجہ میں 1960ء میں رہائی ملی اور وہ پہلے ماسکو اور پھر وہاں سے لندن چلے گئے۔ 1962ء میں ان کو لینن امن انعام ملا۔ لینن انعام ملنے کے بعد فیض کی شہرت ساری دنیا تک پھیل گئی۔ انھوں نے کثرت سے غیر ملکی دورے کیے اور وہاں لیکچر دیے۔ ان کی شاعری پر تحقیقی کام شروع ہوا اور مختلف زبانوں میں ترجمے ہونے لگے۔ 1964ء میں فیض پاکستان واپس آئے اور کراچی میں مقیم ہو گئے۔ ان کو عبداللہ ہارون کالج کا ڈائیریکٹر مقرر کیا گیا اس کے علاوہ انھوں نے وزارت ثقافت کے مشیر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹا تو فیض کے لیے پاکستان میں رہنا ناممکن ہو گیا لہٰذا وہ بیروت چلے گئے۔ بیروت میں وہ سویت امداد یافتہ رسالہ ’لوٹس‘ کے مدیر بنا دیے گئے۔ 1982میں خرابیٔ صحت اور لبنان جنگ کی وجہ سے فیض پاکستان واپس آ گئے۔ 1964ء میں انھیں ادب کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن کسی فیصلہ سے پہلے 20نومبر1984ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔