Mazi kay Mazar
Publisher: Maktaba-e-Danyal
360 .00 RS
Sibte Hasan
About Book
’’اردو میں زمانۂ بعید اور قدیم ترین تاریخی وقوعات پر اب تک صرف ابنِ حنیف ہی نے معنویت سے لکھا تھا چنانچہ ’ہزاروں سال پہلے‘، ’تخلیق کائنات‘، ’گلِ گامش کی داستان‘ اور ’بھولی بسری کہانیاں‘ سبھی ازمنۂ قدیم کے پُر اسرار دھندلکوں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ اب اس ذیل میں سبطِ حسن کی ’ماضی کے مزار‘ بھی شامل ہو جاتی ہے جو اس موضوع پر بلاشبہ ایک مبسوط اور جامع کتاب ہے۔ اس میں وادیٔ دجلہ و فرات کے اس مرحوم تہذیب و تمدن کی داستان بیان کی گئی ہے جو صفحۂ ہستی سے تو مٹ گئی ہے لیکن اس کے اثرات اب بھی ہمارے بعض عقائد اور توہمات کی صورت میں نظر آسکتے ہیں۔ (پروفیسر سلیم اختر)
About Author
سبط حسن31 جولائی، 1912ء کو اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے جہاں ان کے ساتھیوں میں علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز، خواجہ احمد عباس، اختر الایمان اور اختر حسین رائے پوری جیسے افراد شامل تھے۔ کم و بیش اسی زمانے میں ان افراد نے سید سجاد ظہیر کی قیادت میں اردو کی ترقی پسند تحریک کا آغاز کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے اردو کی سب سے مقبول اور ہمہ گیر تحریک بن گئی۔ سید سبط حسن نے عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور وہ پیام، نیا ادب اور نیشنل ہیرالڈ جیسے رسالوں اور اخبار سے وابستہ رہے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ لاہور میں اقامت پزیر ہوئے جہاں انہوں نے 1957ء میں میاں افتخار الدین کے اہتمام میں ہفت روزہ لیل و نہار جاری کیا۔ جب میاں افتخار الدین کے ادارے کو صدر ایوب خان کی حکومت نے جبری طور پر قومی تحویل میں لیا تو سبط حسن لیل و نہار کی ادارت سے مستعفی ہوگئے اور 1965ء میں کراچی منتقل ہوگئے کراچی میں سید سبط حسن نے اپنا زیادہ تر وقت تصنیف و تالیف میں بسر کیا اور اس دوران ماضی کے مزار، موسیٰ سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، انقلاب ایران، کارل مارکس،ادب اور روشن خیالی ،مارکس اور مشرق، افکارِ تازہ، بھگت سنگھہ اور اس کے ساتھی، سخن در سخن ، شہرِ نگاراں اور نوید فکر جیسی خالص علمی اور فکری تصانیف پیش کیں۔ 1975ء میں انہوں نے کراچی سے پاکستانی ادب کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا۔ اگست 1985ء میں لندن میں، مارچ 1986ء میں کراچی میں اور اپریل 1986ء میں لکھنؤ میں ترقی پسند تحریک کی گولڈن جوبلی منائی گئی تو سید سبط حسن نے ان تینوں تقریبات میں فعال کردار ادا کیا۔وہ بھارت میں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے کہ 20 اپریل 1986ء کو دہلی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔