Pakistan

0

Wahin Hum Bhi Thae


by Najma Siddiqi


Publisher: The Little Book Company


360 .00 RS


Najma Siddiqi

About Book

”وہیں ہم بھی تھے۔۔“ نجمہ صدیقی کے تجربات، مشاہدات، اور خیالات پر مبنی اشعار کا مجموعہ ہے، جسے ایک نظمیہ جرنل کے طور پر پیش کیِا گیا ہے۔ نجمہ نے اپنی زندگی کی سات دہائیوں میں جو کچھ دیکھا، سوچا، سمجھا، برداشت کیِا، اور جو کچھ تبدیل کرنے کی کوشش کی، اس کو مختلف اوقات میں نثر اور نظم کے پیرائے میں لکھتی رہیں۔ یہ انتخاب ان کے نظمیہ کلام سے ترتیب دیا گیا ہے، اور مندرجہ ذیل پانچ حصوں پر مشتمل ہے، ۱۔ بولنا بھی ایک قرض ہے لوگو ۲۔ جسے سمجھے ہو تم آقا، نہیں ہے ۳۔ بادل برسے پیاس نہ جائے ۴۔ وہی ہے الجھن، وہ جُہدِ پیہم ۵۔ لگا پھر مِصر کا بازار اس کے علاوہ کتاب کے شروع میں دو تعارفی مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ ایک میں تعارف ہے خود ان کا اور ان کی لکھائی کا، اور دوسرے میں چند ایسے سوال اور ان کے جواب ہیں جو وقتاً فوقتاً نجمہ سے پوچھے جاتے رہے ہیں، اور جن سے ان کی زندگی کی ایک مختصر تصویر ابھرتی ہے۔ جو قارئین نجمہ صدیقی کو پہلے سے جانتے ہیں، اور تفصیلی تعارف میں دلچسپی نہیں رکھتے، وہ ان صفحات سے آگے ان کے نظمیہ کلام پر توجہ دے سکتے ہیں۔

About Author

نجمہ صدیقی بنیادی طور پر ایک ڈویلپمنٹ ورکر ہیں جو اپنے تجربات، مشاہدات، اور خیالات کو دوسروں تک پہچانے میں یقین رکھتی ہیں اور مثبت تبدیلی کے لیے دوسروں کے ساتھ مل کر سیکھنے، سکھانے کو ہر بات پر مقدم سمجھتی ہیں۔ اسی لیے انھوں نے اپنے کام میں ہمیشہ مکالمے، تجزیے، اور عملی مشق کا راستہ اپنایا۔ پڑھنے، سوچنے، اور لکھنے کی عادت ان کو شروع ہی سے تھی۔ اس کے ساتھ ہی اپنے ارد گرد کے حالات سے غیر مطمئن ہونے کی وجہ سے معاشرے میں تبدیلی لانے کی لگن نے بھی جلد ہی جَڑ پکڑ لی۔ بنیادی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تقریباً بائیس، تیئس برس انہوں نے پاکستان، ڈنمارک، اور نیپال میں رہتے ہوئے وہاں کی حکومتوں، اور نجی، بین الاقوامی، اداروں میں کام کیِا۔ اس کے بعد کے بیس، پچیس برس ورلڈ بینک کے ساتھ دنیا کے مختلف علاقوں اور بہت سے ممالک کے ترقیاتی کاموں میں شرکت داری، قدرتی اور انسانی وسائل، گورننس اور لیڈرشپ کی بہتری سے منسلک رہیں۔ لکھنا انھوں نے خود کو اور دوسروں کو سمجھنے کے لیے شروع کیِا تھا۔ اسی لیے انھوں نے کبھی نظم (یا نثر) کہنے کی تربیت نہیں لی، نہ خود کو لکھاری یا شاعر سمجھا۔ اپنی زندگی کی ساتویں دہائی میں جب انھوں نے یہ فیصلہ کیِا کہ جو وہ دیکھتی، سوچتی رہی ہیں اس کو دوسروں تک پہچانا بھی ضروری ہے، تو پہلے قدم کے طور پر، اپنے کلام کا انتخاب کیِا اور ایک نظمیہ جرنل ”وہیں ہم بھی تھے۔۔“ کی اشاعت کے لیے حامی بھری۔ وہ خود کو سب سے پہلے ایک انسان، پاکستانی، پھر عورت، طالب علم، ریسرچر، اور ایکٹیوِسٹ کے طور پر شناخت کرتی ہیں۔ ان کو قدرت، جنگل، پہاڑ، پودوں، جانداروں، سے بے انتہا لگاؤ ہے۔ سمندر، اور چلتے پانی کی آواز ان کو سکون دیتی ہے۔ اور ان سب کی عکس بندی انھیں بہت پسند ہے۔ ان کو پڑھے لکھوں کی جہالت، منافقت، ایک دوسرے کو جھٹلانا، زیر کرنا، اور کسی بھی جاندار کا استحصال کرنا یا اذیت دینا بالکل برداشت نہیں ہوتا، اور اس کے اختتام کے لیے معاشرے میں تبدیلی لانے کو اپنی زندگی کا مقصد مانتی ہیں۔