Karez
Publisher: Maktaba-e-Danyal
360 .00 RS
Farrukh Yar
About Book
فرخ یار کی نظم ’کاریز‘ ہماری سرزمین کے پریوار کی سرگزشت ہے۔ ایسا پریوار جس کا دکھ بانٹنے والا کہیں روپوش ہو چکا ہے۔ فرخ یار کی نظم کا تلازماتی طلسم اس کی اپنی ہڈ بیتی کو اس خطے میں بسنے والے لوگوں کی آپ بیتی میں بدل دیتا ہے، لوگ جنھیں اپنے تہذیبی ماخذ سے محروم کر دیا گیا، جن کے دل و دماغ سے صدیوں کی یادداشت محو کر دی گئی اور جن کے سروں پر نو آبادیاتی جدیدیت کا خول چڑھا دیا گیا۔ باپ کی تلاش ماخذ کی تلاش ہے اور باپ سے جدائی اپنے پورے پریوار سے جدائی۔ فرخ یار اپنے دریائوں، پہاڑوں، چشموںاور اپنے موسموں سے تعلق پیدا کرتا ہے۔ یہ وابستگی، یہ تعلق، یہ جڑت اسے اپنے باپ کے سائے تک پہنچاتی ہے۔ باپ کو یاد کرنا اپنے خطۂ ذات کا سفر کرنا ہے کہ باپ ہی تہذیبی اور ثقافتی مقامیت ہے، جس کے بغیر کوئی قدیم و جدید نہیں۔ کاریز ایک ایسی بے مثال نظم ہے جس میں ہمیں ہماری آنے والی شاعری کے خدوخال نظر آتے ہیں۔ (سرمد صہبائی)
About Author
فرخ یار جدید اردو نظم کے حوالے سے منفرد ترین اسلوب، موضوعات اور آواز کاحامل ہے۔جس نے بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں لکھنا شروع کیا اور نویں دہائی میں نمایاں ہوا۔ابھی تک اس کی نظموں کے چار مجموعے ’’مٹی کا مضمون‘‘ ،’’نیند جھُولتے لوگوں کے لیے لکھی گئی نظمیں‘‘،’’یہ ماہ و سال یہ عمریں‘‘، اور ’’کاریز‘‘ چھپ چُکے ہیں۔کاریز ایک طویل نظم ہے جس میں انسان، زندگی اور مابعد جدیدیت کے پس منظر میں بننے والے منظر نامے پر بات کی گئی ہے۔کاریز کی تقریبِ رونمائی اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول 2019 اور کراچی لٹریچر فیسٹول 2020 میں ہوئی۔فرخ یار کی کتاب ، ’’یہ ماہ و سال یہ عمریں‘‘ کو UBL لٹریری ایوارڈ 2018 برائے بہترین شاعری بھی مل چکا ہے۔تاریخ اور تحقیق فرخ یار کے دیگر دلچسپی کے موضوعات ہیں۔16 صدی عیسوی کے پنجابی شاعر شاہ حسین کے مختلف متون اور اس کے عہد پر فرخ یار کا کام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آج کل ’’دوراہے‘‘ کے نام سے فرخ یار کی نئی کتاب مکتبۂ دانیال میں طباعت کے مراحل میں ہے۔’’دوراہے‘‘ میں جنوبی ایشیا کو مختلف سطحوں اور زاویوں سے ایک اکائی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔فرخ یار نے پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور تاریخ اور سیاسیات کی ڈگریاں لی ہوئی ہیں۔